وزیر بننے کے بعد مراد سعید کے اثاثوں میں 675.فیصد اضافہ کیسے ہوا ؟تحقیقاتی سٹوری

مراد سعید کے اثاثوں میں صرف 4 سال کے عرصے میں 675 فیصد اضافہ کیسے ہوا؟

2018 میں پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالی
مراد سعید وفاقی وزیر ڈاک اور وزیر مواصلات بنا دئیے گئے

7 جون 2020 کو پاکستان پوسٹ کو ڈیجیٹلائزیشن کرنے کے نام پر بغیر ٹینڈر حبیب بنک سے 118 ارب کا 20 سال کے لیے معاہدہ کر لیا گیا

یہ معاہدہ کروانے میں وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید، چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک، سیکرٹری مواصلات ظفر حسن اور ایڈیشنل ڈی جی فنانشل سروس اعجاز احمد منہاس شامل تھے

15 جولائی 2020 کو ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے حکومت پاکستان اور نیب سمیت متعدد اداروں کو خط لکھا
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اپنے خط میں کہا کہ پاکستان پوسٹ نے ٹھیکہ دینے میں پبلک پروکیورمنٹ رولز اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ایکٹ کی خلاف ورزی کی

خط میں کہا گیا کہ : ” اس معاہدے کے بعد وفاقی حکومت کی پنشن (ملٹری و سویلین) پاکستان پوسٹ HBL Konnect کے ذریعے تقسیم کرے گا بینک کا برانچ لیس بینکنگ پلیٹ فارم جو کہ سالانہ تقریباً 465 بلین روپے ہے۔ اگر HBL کے ذریعے دس دن کی پنشن گردش کرتی ہے تو 6 فیصد منافع کی شرح سے ایچ بی ایل HBL،تقریباً 116 ملین روپے سالانہ آمدنی حاصل کرے گا اور یہ معاہدہ 20 سال کی لمبی معدت کے لیے ہے

نجی بینک کو بغیر ٹینڈر کے 118 ارب روپے کا کنٹریکٹ دیا گیا اگر الزامات ثابت ہوتے ہیں تو اس کنٹریکٹ کو منسوخ کیا جائے

اس خط میں معاہدے کے باقی سیکشن میں ایچ بی ایل کے تھرو باقی تقسیم کاری کے فوائد پر روشنی نہیں ڈالی گئی

پاکستان پوسٹ نے اپنی منسٹری کی جانب سے معاہدہ ہونےکے بعد اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے مختلف کمیٹیاں بنائیں تا کہ اس معاہدے کا آپریشنل اور اکاونٹنگ پروسیجر شروع کیا جاسکے اس کے لیے معاہدے کی کاپی طلب کی گئ تو پھر ایک نیا کٹا کھل گیا کہ
یہ معاہدے کی کاپی وہ نہیں ہے جو وزارت قانون کو معاہدے کی منظوری کے وقت فراہم کی گئی تھی
پہلے سکینڈل بغیر ٹینڈر اور 20 سالا طویل مدت کے انتہائی مہنگے کنٹریکٹ تک اور ، HBL کو وسیع تر فوائد حاصل ہونے تک محدود تھا جبکہ پھر اس میں سے مزید ایک انکوائری وزارت قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور اس معاہدے کو ٹیمپر کرنے کی نکل آئی

ایچ بی ایل اور پاکستان پوسٹ کے درمیان اسٹریٹجک الائنس معاہدے کے ریکارڈ کو وزارت قانون کی منظوری کے بعد ٹیمپر کر دیا گیا تھا اور دو شقوں میں تبدیلیاں پائی گئ جن میں شق 2.2 اور 5.1 شامل تھی ۔
جبکہ قانون کے مطابق معاہدے کی منظوری کے بعد اس میں ایک لفظ کا اضافہ جرم تھا
ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) پاکستان پوسٹ نے ریکارڈ ٹمپرنگ اور معاہدے کی شقوں میں تبدیلی کے معاملے کی تحقیقات کے لیے پھر تین رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دے دی
لیکن فیکٹ فائنڈنگ کی رپورٹ پر ایکشن نہیں لیا گیا
یہ سکینڈل پبلک اکاونٹس کمیٹی میں پہنچا ایاز صادق کے زیر سایہ تحقیقات شروع ہوئیں
لیکن اسپیکر قومی اسمبلی نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو پوسٹل سروسز کی ڈیجیٹلائزیشن کے لیے پاکستان پوسٹ اور حبیب بینک کے درمیان 118 ارب روپے کے معاہدے کو رپورٹ سے آگے نہ جانے دیا تاکہ اس معاملے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی نہ ہو سکے

حقائق کے مطابق 118 ارب کا یہ بغیر ٹینڈر کنٹریکٹ اصل میں HBL کو اربوں روپے فائدہ پہنچانے کی الگ کہانی تھی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل TIP نے پاکستان پوسٹ کے ملک بھر میں بتیس سو سب پوسٹ آفسسز اور 9 ہزار کے قریب برانچ پوسٹ آفسز کا حساب نہیں لگایا جس کا سالانہ والیم تقریباً 2 ہزارارب روپے بنتا ہے۔
ایچ بی ایل کے تھرو تنخواہوں اور پینشن کی مد میں یہ 2 ہزار ارب اگر ایک رات کیلئے بھی حبیب بینک کے اکاونٹ میں رہتے ہیں تو سٹیٹ بینک کی پالیسی کے تحت اربوں روپے منافع حبیب بینک کو حاصل ہوتا چنانچہ حبیب بینک کے ساتھ کوئی اور بینک کھڑا نہ ہو سکے اس لیے ٹینڈر جاری نہیں کیا گیا
یہ اربوں روپے کک بیکس کا کیس تھا جس میں مراد سعید سمیت پاکستان پوسٹ کے اعلی افسران، چیف سیکرٹری، سیکرٹری ،ایڈیشنل ڈی جی بھی شریک تھے
یعنی وہی لوگ جو اس معاہدے میں شامل تھے

یہ معاہدہ انتہائی متنازعہ ہو چکا تھا
معاہدوں کی شقوں میں ردوبدل اور انکوائری رپورٹ سامنے آنے اور پاکستان پوسٹ کی بدنامی ہونے کے باوجود اس وقت کے وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے ہمت نہیں ہاری اس سکینڈل میں جن افسران کا نام تھا انھیں ترقی بھی ملی اور ڈائریکٹوریٹ آف پاکستان پوسٹ کو ایچ بی ایل حکام کے ساتھ معاہدے کی شقوں پر دوبارہ بات چیت کرنے کا حکم بھی دیا گیا
آخر کیوں
اسکا جواب بہت آسان ہے
کیونکہ وصولی ہو چکی تھی
کنگلے جب وزیر بنتے ہی فارم ہاوسز کے مالک بن جائیں
اثاثوں میں ایک دم زمین سے آسمان تک کا سفر طے کر لیں
7 مرلے کے مکان کے مالک دریاوں کے راستے پر بڑے بڑے ہوٹلز تعمیر کر لیں
تو اس سب کی قیمت اس وزیر کے انڈر ادارہ چکاتا ہے تب ہی بغیر ٹینڈر کئ سو ارب کے کنٹریکٹ دئیے جاتے ہیں
اس لیے ادارے تباہ ہوے اور وزیر خوشحال ہوے
واضح رہے کہ بہت سے کیس تو بیوروکریسی کے بذات خود شامل ہونے کی وجہ سے فائلوں میں دب گئے لیکن مراد سعید کےخلاف نیب میں غیرقانونی بھرتیوں کا کیس چل رہا ہے مراد سعید نے فرنٹ مین حمید اور فضل مولا کے ذریعے ان پیسوں سے پراپرٹی خریدی
اس منسٹری کے بعد مراد سعید کے اثاثوں میں 675 فیصد اضافہ ہوا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں