معلوماتکا خزانہ ۔۔۔مغل دور سے سکے کی قدر و قیمت

مغل دور حکومت سے اب تک کرنسی کی قیمت اور بدلتا ھوا رنگ و روپ۔۔۔۔
3 پھوٹی کوڑی= 1کوڑی
10کوڑی = 1 دمڑی
02دمڑى = 1.5پائى.
ڈیڑھ پائى = 1 دهيلا.
2دهيلا = 1 پيسہ .
تین پیسے= ایک ٹکہ
چھ پيسه یا دو ٹکے= 1 آنہ .
دو آنے= دونی
چار آنے= چونی
آٹھ آنے= اٹھنی
16 آنے = 1 روپيہ
جس طرح اردو زبان کے روزمرہ میں “پھوٹی کوڑی” کو محاورتاً محتاجی کی علامت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً میرے پاس پھوڑی کوڑی تک نہیں بچی۔ اسی طرح
کوڑی کوڑی کا محتاج ہو جانا
دمڑی جاۓ چمڑی نہ جاۓ در اصل کنجوسی کی شدید حالت کو بیان کرنےکے لئیے استعمال ہوتا ہے
ایک پائ نہ ہونا غربت کا مظہر …
ایک دھیلے کا نہ ہونا ذراکم غربت ..
ایک ٹکے کی اوقات (ذلیل کرنے کا غیر مہذب بیانیہ)..
ٹکہ بنگلہ دیش کی کرنسی بھی ہے
کیونکہ سب سے اعلی اور مکمل حیثیت روپیہ کی تھی (جس میں سولہ آنے ہوتے تھے) اس لئیے بات کا سولہ آنے صحیح ہونا ۱۰۰ فیصد صحیح کے مترادف ہوتا تھا۔۔۔
“پھوٹی کوڑی، کوڑی، دمڑی، دھیلا”
چند دن پہلے ایک ٹین ایجر نے پوچھ لیا کہ یہ “پھوٹی کوڑی”کیا ہوتی ہے؟ آج کی نسل کے لیے کوڑی،دھیلا،دمڑی ٹکا وغیرہ ایسے الفاظ ہیں جن کو وہ سرے سے سمجھنے سے قاصر ہے کیونکہ موجودہ نسل تو زیادہ تر کرنسی نوٹ ہی دیکھتےہیں۔ذرا تاریخ کے جھروکے میں جھانکیں تو پتہ چلتا ہے کہ برصغیر میں سکوں سے پہلے ، سامان کے تبادلے سے لین دین ہوتا تھا۔ جسے بارٹر سسٹم ( barter system)کہتے ہیں۔پھوٹی کوڑی مغل دور حکومت کی ایک کرنسی تھی جس کی قدر سب سے کم تھی۔ 3 پھوٹی کوڑیوں سے ایک کوڑی بنتی تھی اور 10 کوڑیوں سے ایک دمڑی۔ علاوہ ازیں اردو زبان کے روزمرہ میں “پھوٹی کوڑی” کو محاورتاً محتاجی کی علامت کے طور پر بھی استعمال کیاجاتا ہے مثلاً میرے پاس پھوٹی کوڑی تک نہیں بچی۔
قدیم زمانے میں کوڑیوں سے ایک کھیل بھی کھیلا جاتا تھاجو بہت مشہور تھا،جسے”چوپٹ”کہا جاتا تھا۔ اسی سے ملتا جلتا ایک اور کھیل “پچیسی”بھی تھا جو لوڈو کی طرز پر کھیلا جاتا تھا،ان دونوں کھیلوں میں کوڑیاں بطور ’ڈائس‘(لوڈو کے دانے)استعمال ہوتی تھیں۔ ہندوؤں کی مذہبی کتاب’مہابھارت‘ میں بھی اس کھیل کا تذکرہ موجود ہے ۔
سیپ چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے سائز میں پائی جاتی ہیں۔ سب سے بڑا سائز بطور ’سنکھ‘ استعمال ہوتا ہے۔ ہندو برادری میں ’سنکھ‘ بجانا صدیوں پرانی روایات کا حصہ شمار ہوتا ہے۔
دمڑی ہندوستان میں کانسی کا سکہ ہوا کرتا تھا۔ ایک پیسہ چار دمڑی کے برابر ہوتا تھا۔ دمڑی غالباً دام سے ماخوذ ہے جو مغل بادشاہ اکبر اعظم کے زمانے میں تابنے کا ایک سکہ ہوا کرتا تھا۔ قوت خرید کے لحاظ سے یہ اپنے وقت کا چھوٹا ترین سکہ تھا۔سعادت حسن منٹوکے افسانوں اور ِمیرامَن کی تصنیف “باغ و بہار”یعنی قصہ چہار درویش میں لفظ دمڑی استعمال ہوا ہے۔
سونے ، چاندی ، پیتل ، تانبے کے علاوہ کوڑیوں کا بھی استعمال کیا جاتا تھا اور کوڑیوں کی اتنی اہمیت تھی کہ پھوٹی کوڑیاں بھی چلائی جاتیں۔پھوٹی کوڑی کے بدلے ٹھیلے والے سے چورن ، کالا نمک، مولی کانمک ، املی اور دیگر سستی کھانے کی چیزیں خریدی جاتی تھیں۔ دھیلے اور دمڑی مغل دور میں استعمال ہونے والےآخری سکے تھے۔ ایک روپے میں 128دھیلے، 192 پائی اور 256 دمڑیاں آتی تھیں۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ سکوں کا رواج عام ہونے لگا۔بہرحال یہ تو قیام پاکستان سے بہت پہلے کی کرنسیاں اور سکے تھے۔ جب کاغذی کرنسی یا بینک نوٹ گردش میں نہیں آئے تھے۔ برصغیر انگریزوں کے دور میں ابتدائی کرنسی نوٹ 1867 کے لگ بھگ جاری کیے گئے جن پر ملکہ وکٹوریہ کی شبیہہ ہوا کرتی تھی۔
اس وقت وطن عزیز میں عام طور پہ صرف تین سکے گردش میں ہیں جن میں ایک روپیہ، دو روپے پانچ روپے اور دس روپے کے سکے شامل ہیں۔
ایک اور دو روپے کے سکے 1998 ء میں جاری کیے گئے ہیں جب کہ 5 روپے کا سکہ 2002 میں متعارف کروایا گیا تھا۔۔
سکے آج بھی موجود ہیں مگر ان کی قدر و قیمت نہ ہونے کے برابر ہے۔ سکہ اگر کسی گداگر کو بھی دیا جائے تو وہ منہ بسور لیتا ہے۔ کرنسی نوٹوں کی ویلیو بھی دن بدن کم تر ہو رہی ہے۔ پلاسٹک منی تیزی سے ان کی جگہ لے رہی ہے۔جس تیزی سے ٹیکنالوجی میں ترقی ہورہی ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ بہت جلد پلاسٹک منی بھی ختم ہونے والی ہے۔ ساری ادائیگی اسمارٹ فون کے ذریعے ہوا کریں گی۔۔۔
اللہ کریم ھم سب کا حامی و ناصر ہو امین یا رب العالمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں