قانون پر عمل داری کی مثال ۔۔۔۔۔قصہاص کی کہانی

نوجوان محمد بن مرسل سعودی عرب کے شہر نجران کے رہنے والے تھے معمولی سی تلخی کے باعث ان کے ہاتھ سے ان کے ایک کزن کا قتل ہوا ،ان کو جیل ہوگئی ،جیل میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد عدالت نے قصاص میں انکی گردن اڑانے کا حکم سنا دیا،البتہ شرعی طور پر مقتول کے ورثاء کے پاس دیت لینے یا فی سبیل اللہ معاف کرنے کا اختیار بھی تھا،محمد مرسل کے قبیلے آل رزق کے بچوں ،بزرگوں اور نوجوانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مقتول کے قبیلہ آل صنیج کے سامنے معافی کی درخواست رکھی جائے وہ چاہیں تو دیت لیں وہ چاہیں تو معاف کریں یہ درخواست رکھنے کا جو انداز تھا یہ اتنا منفرد تھا،یہ اتنی عاجزی اور فریاد لیے تھا کہ پورے عرب میڈیا کا یہ موضوع بن گیا،محمد بن مرسل کے قبیلے کے چھوٹے بڑے بزرگ بچے سب مقتول کے دروازے پر پہنچ گیے،مقتول کے ورثاء کو بلایا گیا،ان کے سامنے قبیلے کے سرداروں اور شیخوں نے جوانوں اور بچوں نے اپنی عقالیں،چادریں،لمبے جبے اتار کر مقتول کے ورثاء کے قدموں میں رکھے،عزت اور فخر سمجھی جانے والی چیزیں اور اشیاء اتار کر مقتول کی چوکھٹ میں رکھ دیے ،اپنی چادروں سے گھٹنوں کو باندھ کر زمین پر لیٹ گئے،اپنے سروں پر مٹی ڈالا،شاعروں نے معافی پر قصیدے پڑھے،قاتل کے ننھے بچے نے یوں معافی کی استدعا کی کہ جگر کٹ جاۓ،جو اور جتنی چاہیے دیت کی پیش کش کی گئی،پورا سعودی عرب بول پڑا کہ معاف کیا جانا چاہئے،شریعت نے دیت اور معافی کا آپشن بھی تو رکھا ہے،لیکن مقتول کے ورثاء نے نہ تو معاف کیا اور نہ دیت پر راضی ہوئے چنانچہ تین دن پہلے بیس ستمبر کو نوجوان محمد بن مرسل کی گردن قصاص میں اڑا دی گئی،یہ پہلا قاتل تھا جس کیلئے پورے ملک میں مغفرت کی دعائیں ہو رہی ہیں،لوگ ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں،لیکن دوسری طرف قانون اپنی جگہ کتنا مضبوط ہے کہ سب کچھ کے باوجود نافذ ہوا –

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں