جنسی هراسگی اور شریف زادے ۔۔۔ڈاکٹر حفیظ الر خمان

جنسی ہراسگی اور “شریف زادے”

پاکستان کی آبادی 23 کروڑ سے زائد ہے جس میں خواتین کی تعداد آدھی ہے یعنی 11.6 کروڑ۔ ہم ایک ایسا ملک ہیں جہاں مشرقی اقدار کی تعریفوں میں اور مغربی ممالک کی روش کو نہ اپنانے کی باتیں منہ سے جھاگ نکال نکال کر کی جاتی ہیں۔ہمارے یہاں ہر مرد شریف اور پارسا ہے اور بات بات پر مشرقی اقدار اور اپنے نظریات کی یاد دہانی کراتا پھرتا ہے مگر حال یہ ہے کہ مملکتِ خداداد میں خواتین کسی بھی شعبے میں آزادی سے اور بنا کسی خوف اور ہراسگی کے نوکری نہیں کر سکتیں کہ ملک کی ترقی میں ہاتھ بٹا سکیں ۔ آدھی آبادی تو ہم نے اس ڈر سے فارغ بٹھا دی ہے اور چلے ہیں ملک کو عظیم بنانے۔

پاکستان میں کام کے ماحول میں، راہ چلتے عوتوں کو “شریف” مرد زادوں سے جنسی ہراسگی کا سامنا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ جسکو تجربہ کرنا ہے وہ کر لے بعد میں آ کر یہاں بھاشن دے۔ حال یہ ہے کہ کوئی عورت کو گھر کی ملکہ بنانے پر تُلا ہے اور کسی کو باہر چلتی یا کام کرتی خاتون ٹافی نظر آتی ہے۔ اوپر سے “شریف زادوں” نے اُڑا رکھی ہے کہ باہر کے ممالک میں خواتین خوش نہیں، اُنکے ساتھ آئے روز زیادتی ہوتی ہے اور جو خواتین کام کی غرض سے گھر سے نکلتی ہیں وہ دھندہ کرنے لگ جاتی ہیں۔ ذہنوں میں اتنا گند بھرا ہوا ہے کہ انہیں عورت انسان نہیں بس جسم نظر آتی ہے اور ہر برائی کی جڑ رورت یی نظر آتی ہے۔ جیسے ہمارے ہاں خواتین کے ساتھ زیادتی نہیں ہوتی، اُنکے حقوق سلب نہیں ہوتے، انہیں تختہ مشق نہیں بنایا جاتا اور انکے ساتھ جانوروں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا۔

باہر کے ممالک میں خواتین کو تمام حقوق حاصل ہیں۔ انہیں شخصی آزادی حاصل ہے۔ وہاں بھی نارمل انسان رہتے ہیں جو شادی کرتے ہیں، انکے بچے ہوتےبیں، انکے خاندان ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں “شریف زادوں” کو لگتا ہے کہ باہر کے معاشروں میں بھائی بہن، ماں بیٹا، باپ بیٹی سب ایک دوسرے پر ہر وقت چڑھے رہتے ہیں۔ گند انکے دماغ میں ہے، اپنی تجربہ گاہوں میں یہ چھوٹے بچوں کی “سرجریاں” کرتے پھرتے ہیں اور بے حیائی یہ کسی اور کے سر تھوپتے ہیں۔ انہیں نہ حرام کمانے والے نظر آتے ہیں، نہ بددیانت، نہ چور اور نہ ڈاکو بلکہ اُنکی جھولیوں میں بیٹھ کر تو یہ مزے سے لولی پاپ چوستے ہیں ۔ ان “شریف زادوں” اور انکے چمچوں سے عرض ہے کہ پہلے اپنے ملک کو تو خواتین کے لیے محفوظ بنا لیں بعد میں دوسرے ممالک اور انکے طرزِ معاشرت پر اعتراض کیجیے گا۔ حالت یہ ہے کہ ہمارے ہاں خواتین کو ہر وقت اپنی عزت کی حفاظت کرنی پڑتی ہے چاہے وہ برقعے میں ہو یا بغیر برقعے کے۔ جبکہ وہ ایسے معاشرے میں رہتی ہیں جہاں مرد یہ دعویٰ کرتے پھرتے ہیں کہ انکے پاس دنیا کا بہترین طرزِ زندگی ہے اور بچہن سے اُنہیں یہ سب رٹایا جاتا ہے اور یہ کہ وہ عورت کی حفاظت کے ضامن ہیں۔

#ڈاکٹر_حفیظ_الحسن

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں