اٹھارہ اکتوبر ٢٠٠٥۔ ۔جب ایک لاکھ لوگ روزہ رکھ کر ہمیشہ کے لیے سو گئے

بالاکوٹ قیامت خیز زلزلے کے 18 سال مکمل متاثرین زلزلہ ریڈوزن آج اٹھارہ سال بعد بھی نیو بالاکوٹ سٹی بکریال میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے منتظر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ حادثات و سانحات ایسے بھی ہوتے ہیں، جو بُھلائے نہیں بُھولتے۔ ایسا ہی ایک دل ہلا دینے والا درد ناک واقعہ 8 اکتوبر 2005ء کو پیش آیا، جسے سوچ کر آج بھی دل دہل جاتا ہے،آنکھیں بھیگنے لگتی ہیں۔ اُس روز پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین اور دنیا کے چوتھے بڑے زلزلے کا شکار ہوا۔ جسمیں تحصیل بالاکوٹ بری طرح متاثر ہوئی اور بالاکوٹ شہر صفحہ ہستی سے مٹ گیا تھا لیکن اس سے بھی زیادہ کرب ناک بات یہ ہے کہ 18 برس بعد بھی متاثرین زلزلہ بالاکوٹ حکومتی وعدوں کی تکمیل کے منتظر ہیں
8اکتوبر 2005 یہ وہ دن تھا جب بالاکوٹ کے پہاڑ اپنے ہی دامنِ میں بسنے والوں پر ٹوٹ پڑے،گھر اپنے ہی مکینوں کے قبرستان بن گئے۔ ہر سال سانحے کی برسی پر فوٹو سیشن تو ہوتے ہیں، مگر کسی بھی حکومت کا کوئی ایک وعدہ وفا نہ ہوا. قدرتی آفات میں زلزلہ ایسی آفت ہے ’جو کرہ ارض پر جہاں بھی آتا ہے‘ وہاں تباہی و بربادی لاتا ہے۔ دنیا میں ابھی تک کوئی ایسا نظام ایجاد نہیں ہوا ’جس سے زلزلہ کا پیشگی پتا چل سکے۔ بیسویں اور اکیسویں صدی میں کئی تباہ کن زلزلے آئے‘ جو لاکھوں جانوں کو لقمہ اجل بنا گئے. بالاکوٹ میں بھی 3 رمضان المبارک 8 اکتوبر 2005 کو ایک خوفناک زلزلہ صبح 8 بج کر 52 منٹ پر آیا، جس کے نتیجے میں چند ہی سیکنڈز میں ہنستے بستے شہر ملبے کا ڈھیر بن گئے؛ اور تقریبا 87 ہزار افراد روزہ کی حالت میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہر طرف گرد و غبار چیخیں آہیں اور سیسکیاں معجزانہ طور پر بچ جانے والے ٹنوں وزنی ملبے تلے دبے اپنے پیاروں کو تلاش کرنے میں مصروف عمل عمارتوں کے نیچے دَبی لاشیں نکالنے میں چھے ماہ سے زائد عرصہ لگا۔ اس سانحے نے دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ وقت کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو، پاکستانی اپنی قوم و ملّت کے ساتھ کھڑے ہیں۔عوام نے پاک فوج کے ساتھ مل کر امدادی کارروائیوں میں بھر پور حصّہ لیا۔ مُلک بھر میں امدادی کیمپ لگائے گئے، پوری قوم نے ملکر اپنی قوم کے مجبور بہن، بھائیوں کی آگے بڑھ کر مدد کی۔ اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے عالمی ڈونر کانفرنس طلب کی، جس میں تمام ممالک کے مندوبین نے شرکت کی اور متاثرینِ زلزلہ کے لیے اربوں ڈالرز کی امداد دی، لیکن افسوس کہ جنرل مشرف کے جانے کے بعد مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے امداد کا درست استعمال نہیں ہوسکا اور وہ اصل متاثرین تک نہ پہنچ سکی، بالخصوص بالاکوٹ میں تاحال تعمیرو ترقّی میں کسی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ حکومت زلزلے میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو ایک، ایک لاکھ روپے اور گھر تباہ ہونے والے خاندانوں کو فی کس ایک لاکھ،75 ہزار روپے تھما کر ایک طرف ہو گئی۔ لوگوں نے اپنی مدد آپ ہی کے تحت جیسے تیسےکچّے پکّے گھر تو تعمیر کر لیے، مگر کسی بھی دَورِ حکومت میں متاثرین زلزلہ پر خاص توجہ نہیں دی گئی؛ عالمی اداروں کی رپورٹ کے بعد بالاکوٹ کی دو یونین کاؤنسلز، گرلاٹ اور بالاکوٹ کے شہری علاقے کو فالٹ لائن پر ہونے کے سبب ’’ ریڈ زون‘‘ قرار دیا گیا تھا، جسکی وجہ سے 2006ء میں پختہ تعمیرات پر پابندی عائد کرتے ہوئے وہاں مقیم 5,400 خاندانوں کو بکریال کے مقام پر نیو بالاکوٹ سٹی کے نام سے شہر تعمیر کرکے وہاں بسانے کا فیصلہ کیا، مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔اکتوبر 2006ء میں پریذیڈنٹ ریلیف فنڈ سے نئے شہر کے لیے صوبائی حکومت کو ڈیڑھ ارب روپے بھی دیے گئے، جس سے 11,436 کنال ، 19مرلے زمین خریدی گئی اور مرحوم صدر مشرف نے پراجیکٹ کا افتتاح بھی کیا، مگر بعد ازاں، کام سیاست کی نذر ہوگیا۔ متاثرین کو نیو بکریال سٹی میں 2011ء میں منتقل ہونا تھا، مگر اب تک وہاں جانے والی سڑک تک نہ بن سکی، جب کہ نیو بالاکوٹ سٹی بالاکوٹ منصوبہ مکمل طور پر بند ہے۔‘بعد ازان چیف جسٹس، جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رُکنی بینچ نے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں اسکولز کی عدم تعمیر پر ازخود نوٹس کی سماعت کی اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے، اگر بیوروکریسی کام نہیں کرسکتی تو گھر چلی جائے۔ زلزلہ میں دیگر انفراسٹرکچر کے ساتھ تحصیل بالاکوٹ کے سینکڑوں سکول بھی تباہ ہوئے جن میں سے کئی سکول ابھی تک نہ بن سکے اور کئی زیر تعمیر ہیں جبکہ ریڈوزن ایریا کے سکولز ابھی تک فیبریکٹڈ شیلٹروں میں چل رھے ہیں؛ سپریم کورٹ میں اس وقت کی خیبر پختون خواہ حکومت نے اسکولز کی عدم تعمیر کا ملبہ ایراء پر ڈالتے ہوئےموقف اختیار کیا کہ’زلزلہ زدہ علاقوں کی بحالی اور نیو بالاکوٹ سٹی میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ ایراء کی ذمّے داری تھی، صوبائی حکومت کو فروری 2020ء میں متاثرہ علاقوں کا کنٹرول ملا۔تاہم تین سال سے سابقہ صوبائی حکومت بھی متاثرین زلزلہ کی بحالی کیلیے کچھ نہ کر سکی مبینہ طور پر بتایا جاتا ہے کہ انتظامیہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کے لیے پبلک/ پرائیویٹ پارٹنر شپ کا نیا جواز گھڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ متاثرینِ زلزلہ اب صرف جلد از جلد نیو بالاکوٹ سٹی کی تعمیر چاہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر مذکورہ ادارے اپنی ذمّے داریاں فرائض خوش اسلوبی سے ادا کرتے تو آج متاثرین بہت بہتر حالت میں ہوتے، نہ بچّوں کی تعلیم متاثر ہوتی اور نہ معاملہ عدالت تک پہنچتا۔ اب بھی وقت ہے کہ موجودہ حکومت اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر اگر ایراء چیئرمین کو ذمہداری سونپ دیں اور مطلوبہ فنڈ معیا کریں تو نیو بالاکوٹ سٹی کے 5 ھزار سے زائد گھر صرف 2 سال کے اندر نیو بالاکوٹ سٹی میں آباد ھو سکتے ہیں.. اور اگر حکومت گھر بنا کر دینے کی پوزیشن مین نہیں تو کم از کم متاثرین کو انکے پلاٹ قانونی طور پر الاٹ کر دیے جائیں تو وہ خود اپنی نسلوں کیلئے چھت تعمیر کرکے سکھ کا سانس لے سکیں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں