پنجاب میں انتخابات پر الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست کی سماعت، پی ٹی آئی کا جواب جمع

اسلام آباد: پنجاب میں انتخابات کے عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں جاری ہے جس میں تحریک انصاف نے جواب جمع کرادیا اور کہا ہے کہ الیکشن کمیشن چاہتا ہے سپریم کورٹ نظریہ ضرورت کو زندہ کرے۔

سپریم کورٹ کے پنجاب میں انتخابات کے حکم کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست پر سماعت ہوئی۔ سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ میں شامل تھے۔

وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ تحریک انصاف سمیت کسی فریق کے جواب کی کاپی نہیں ملی، تمام جوابات کا جائزہ لینے کیلئے موقع دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنی درخواست پر تو دلائل دیں، آئندہ سماعت پر کوئی نیا نکتہ اٹھانا ہوا تو اٹھاسکتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے دلائل کا آغاز کردیا اور کہا کہ نظرثانی درخواست کا دائرہ اختیار آئینی مقدمات میں محدود نہیں ہوتا، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھایا جاسکتا ہے لیکن کم نہیں کیا جاسکتا، نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار دیوانی اور فوجداری مقدمات میں محدود ہوتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بنیادی حقوق کے لیے عدالت سے رجوع کرنا سول نوعیت کا کیس ہوتا ہے، آرٹیکل 184(3) کے تحت کارروائی سول نوعیت کی نہیں ہوتی، آرٹیکل 184(3) کا ایک حصہ عوامی مفاد اور دوسرا بنیادی حقوق کا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر انتخابات کا مقدمہ ہائی کورٹ سے ہوکر آتا تو کیا سول کیس نہ ہوتا؟ اس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہائی کورٹ کا آئینی اختیار سپریم کورٹ سے زیادہ ہے۔

اسی ضمن میں تحریک انصاف نے پنجاب الیکشنز نظرثانی کیس میں جواب جمع کرا دیا۔ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل مسترد کرنے کی استدعا کردی اور کہا کہ نظرثانی اپیل میں الیکشن کمیشن نے نئے نکات اٹھائے ہیں جب کہ نظرثانی اپیل میں نئے نکات نہیں اٹھائے جاسکتے، الیکشن کمیشن نظرثانی اپیل میں نئے سرے سے دلائل دینا چاہتا ہے۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کوئی تاریخ نہیں دی، عدالت نے 90 روز میں انتخابات کے لیے ڈیڈلائن مقرر کی، صدر مملکت نے انتخابات کے لیے 30 اپریل کی تاریخ دی اور الیکشن کمیشن نے 30 اپریل کی تاریخ کو تبدیل کردیا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر 30 اپریل کی تاخیر کو کور کیا۔

پی ٹی آئی نے کہا کہ 30 اپریل کی تاریخ میں 13 دن کی تاخیر ہوئی، عدالت نے فیصلے میں 13 دن کی تاخیر کو کور کیا، سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن کا جائزہ لینے کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن چاہتا ہے سپریم کورٹ نظریہ ضرورت کو زندہ کرے، نظریہ ضرورت دفن کیا چکا جسے زندہ نہیں کیا جاسکتا، 90 روز میں الیکشن آئینی تقاضا ہے، آرٹیکل 218 کی روشنی میں آرٹیکل 224 کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

تحریری بیان میں پی ٹی آئی نے کہا کہ آئین اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دیتا ہے، آئین میں نہیں لکھا تمام انتخابات ایک ساتھ ہونگے، الیکشن کمیشن کے کہنے پر سپریم کورٹ آئین میں ترمیم نہیں کرسکتی، آرٹیکل 254 کے لیے 90 دنوں میں انتخابات کے آرٹیکل 224 کو غیر موثر نہیں کیا جاسکتا۔

تحریک انصاف نے اپنے موقف میں کہا ہے کہ آئین کے بغیر زمینی حقائق کو دیکھنے کی دلیل نظریہ ضرورت اور خطرناک ہے اور ایسی خطرناک دلیل ماضی میں آئین توڑنے کے لیے استعمال ہوئی، عدالت ایسی دلیل کو ہمیشہ کے لیے مسترد کرچکی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں