اس بابرکت مہینے میں اپنے اردگرد سفید پوش لوگوں کا خیال رکھیئے

میں نے پوچھا، اعظم چاچا! کل میرے گھر میں افطاری ہے، قریباً پچاس احباب ہوں گے، مجھے پکوڑے چاہئیں، آپ کو اڈوانس کتنے پیسے دے جاؤں؟ چاچا جی نے میری طرف دیکھا اور سوالیہ نظروں سے مسکرائے ۔ “کتنے پیسے دے سکتے ہو” مجھے ایسے لگا، جیسے چاچا جی نے میری توہین کی ہے، مجھے ایک عرصے سے جانتے ہوئے بھی یہ سوال بے محل اور تضحیک تھی،

میں نے اصل قیمت سے زیادہ پیسے نکالے اور چاچا جی کے سامنے رکھ دئیے، چاچا جی نے پیسے اٹھائے اور مجھے دیتے ہوئے بولے، وہ سامنے سڑک کے اس پار اس بوڑھی عورت کو دے دو، کل آ کر اپنے سموسے پکوڑے لے جانا، میری پریشانی تم نے حل کر دی، افطاری کا وقت قریب تھا اور میرے پاس اتنے پیسے جمع نہیں ہو رہے تھے کہ اسے دے سکتا ، اب بیچاری چند دن سحری اور افطاری کی فکر سے آزاد ہو جائے گی۔ میرے جسم میں ٹھنڈی سی لہر دوڑ گئی۔

وہ کون ہے آپکی ؟؟ میرے منہ سے بے اختیار سوال نکلا ۔ چاچا جی تپ گئے، وہ میری ماں ہے ، بیٹی ہے اور بہن ہے ۔ تم پیسے والے کیا جانو، رشتے کیا ہوتے ہیں، جنہیں انسانیت کی پہچان نہیں رہی انہیں رشتوں کا بھرم کیسے ہو گا؟ پچھلے تین گھنٹے سے کھڑی ہے، نہ مانگ رہی ہے اور نہ کوئی دے رہا ہے۔ تم لوگ بھوکا رہنے کو روزہ سمجھتے ہو اور پیٹ بھرے رشتےداروں کو افطار کرا کے سمجھتے ہو ثواب کما لیا۔

“اگر روزہ رکھ کے بھی احساس نہیں جاگا تو یہ روزہ نہیں، صرف بھوک ہے بھوک” میں بوجھل قدموں سے اس بڑھیا کی طرف جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا، اپنے ایمان کا وزن کر رہا تھا، یہ میرے ہاتھ میں پیسے میرے نہیں تھے غریب پکوڑے والے کے تھے، میرے پیسے تو رشتوں کو استوار کر رہے تھے۔

چاچا جی کے پیسے اللہ کی رضا کو حاصل کرنے جا رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس بڑھیا میں ماں، بہن اور بیٹی مجھے کیوں دکھائی نہیں دی؟ اے کاش میں بھی چاچا جی کی آنکھ سے دیکھتا۔ اے کاش تمام صاحبان حیثیت بھی اسی آنکھ کے مالک ہوتے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں